سنہ اڑتالیس سے اب تک موت، سوگ، بے گھری، ملال اور ناامیدی کی ایک کروڑ پچپن لاکھ تیس ہزار چار سو انیس تصاویر تو شائع ہو ہی چکی ہوں گی۔ چار بڑی، تین چھوٹی اور دو اندرونی جنگیں بھی لڑ لی گئیں مگر مسئلہ حل نہیں ہوا۔
محمود عباس کے کلام میں بہت تاثیر سہی مگر مسئلہ حل نہیں ہوا۔
عرفات نے بندوق چھوڑ کے شاخِ زیتون تھام لی۔ عرفات حل ہوگیا مسئلہ حل نہیں ہوا۔
اگر حماس والے پانچویں جماعت کی کتابوں سے چرائے فارمولے کی مدد سے تیارکردہ ایک لاکھ کھلونا راکٹ بھی اسرائیل پر برسا دیں اور ہر کھلونا راکٹ کے بدلے اسرائیلی فضائیہ ایک سو فلسطینیوں کو مار بھی ڈالے تب بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
بھلے اسلامی کانفرنس اور عرب لیگ جیسی پارسا بیبیاں چپ رہیں کہ ٹسوے بہائیں، ازلی بیوہ اقوامِ متحدہ نیتن یاہو کے ہاتھ جوڑے کہ پاؤں پکڑ لے، عرب دور دور سے اسرائیل کو فحش اشارے کریں یا اپنا گریبان سی سی کے پھاڑتے رہیں، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
پہلے فوری نوعیت کا مسئلہ تو طے ہوجائے کہ اچھا مسلمان کون ہے کون نہیں ۔پہلے ہاتھ باندھ کے اور ہاتھ کھول کے نماز پڑھنے والوں کی آدم شماری اور صف بندی تو مکمل ہوجائے۔ پہلے یہ تو پتہ چل جائے کہ لڑنے کے لیے جذباتی مکہ موثر ہے کہ عقلی کلاشنکوف۔ پہلے یہ تو منکشف ہو جائے کہ کتنے مسلمان حکمران عرف گینگسٹرز فلسطین کو ایک سیاسی مہرہ اور مفاداتی خام مال سمجھتے ہیں اور کتنے صرف ایک کاز ۔
جلدی کیا ہے؟ ابھی چھیاسٹھ برس ہی تو ہوئے ہیں مرضِ ارضِ فلسطین کو۔ چار ملین ہی تو بے گھر ہیں۔ ایک ڈیڑھ لاکھ ہی تو مرے ہیں۔ ابھی تک چار نسلوں کے پیروں تلے ہی سے تو زمین نکلی ہے۔ ہاں جو مرگیا اس کا تو مسئلہِ فلسطین حل ہوگیا۔ زندوں کا بھی ہو ہی جائے گا ایک نہ ایک دن۔
جب گسٹاپو والے کنسنٹریشن کیمپوں کو جانے والی گاڑیوں میں ہانک ہانک کر یہودی بھرتے تھے تو خالص آریائی جرمن دو رویہ کھڑے تالیاں بجاتے تھے ۔اٹہتر برس بعد انھی مظلوموں کی چوتھی نسل سیدروت قصبے کی پہاڑی پر رات کو کھڑے ہو کر غزہ کے کنسنٹریشن کیمپ پر گرتے بموں کی روشنی سے آتش بازی کا لطف اٹھا رہی ہے۔ نازیت کوئی نظریہ تھوڑا ہے۔ ایک کیفیت ہے جو کسی بھی دور میں کسی بھی گروہ پر کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ آپ اس کیفیت کو اپنی سہولت سے کچھ بھی کہہ لیں۔ کشور کشائی، ہوسِ ملک گیری، چنگیزیت، بربریت، اپار تھائیڈ، صیہونیت، کافریت، سامراجیت، نسلیت، فسطائیت، جنونیت ۔ کوئی بھی اچھا سا نام۔
وسعت اللہ خان ، بی بی سی اردو